ٹیسٹ میچ کیلیے آئیڈیل پچ کیسی ہونی چاہیے؟

پاکستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیموں کے مابین راولپنڈی میں کھیلا جانے والا پہلا ٹیسٹ میچ کسی فیصلے کے بغیر ختم ہو گیا۔  

وکٹ کھلاڑیوں کیلئے بیٹنگ کی جنت ثابت ہوئی ۔ اس بیٹنگ وکٹ پر بولرز کو وکٹیں حاصل کرنے کیلئے زبردست محنت کرنا پڑی ۔ پانچوں دن زنزوں کے انبار لگتے رہے۔ چوتھے روز ہونے والی ہلکی بارش سے پاکستان کے اسپنر نعمان علی نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔

آسٹریلوی کرکٹ ٹیم 24  سال بعد پاکستانی سرزمین پر ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہی ہے ۔ سیکورٹی خدشات کی وجہ سے آسٹریلیا سمیت کئی ٹیموں نے پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا تھا تاہم اس عرصے میں پاکستان کے بجائے یو اے ای ‘سری لنکا اور انگلینڈ جیسے نیوٹرل گرائونڈز پر پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ٹیسٹ میچز کھیلے گئے ۔ آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کی قیادت فاسٹ بولر پیٹ کمنز کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی ٹیم کے قائد بابر اعظم ہیں ۔

آسٹریلوی ٹیم میں شامل تمام کھلاڑی پہلی بار پاکستانی سرزمین پر کھیل رہے ہیں تاہم انہیں بھارت ‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کی وکٹوں پر کھیلنے کا  تجربہ ہے جو ان کیلئے کچھ معاون ثابت ہو گا۔

پاکستانی کرکٹ حکام کو اس سیریز کو دل چسپ اور سنسنی خیز بنانے کیلئے باقی دونوں ٹیسٹ میچز کیلئے سپورٹنگ وکٹیں بنانی چاہیں  ۔ اگر وکٹیں بیٹرز اور بولرز دونوں کیلئے سازگار ہوں گی تو میچز کو نتیجہ خیز بنانے میں مدد ملے گی اور عوام کی دل چسپی بھی برقرار رہے گی ۔

دونوں ٹیمیں تیسری بار راولپنڈی میں میدان میں اتری تھیں ۔ آسٹریلیا کو راولپنڈی میں ایک ٹیسٹ میچ میں کامیابی نصیب ہوئی جو1998 میں مارک ٹیلر الیون نے ایک اننگز اور 99 رنز سے جیتا تھا ۔

تین ٹیسٹ میچز کی رواں سیریز میں پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین راولپنڈی میں کھیلا جانے والا پہلا ٹیسٹ میچ کسی نیتجے کے بغیر ختم ہو گیا۔ یہ ٹیسٹ میچ دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کیلئے بیٹنگ پریکٹس ثابت ہوا جس میں پاکستانی اوپنر امام الحق نے دونوں اننگزمیں سنچریاں بنانے کا کارنامہ انجام دیا جبکہ دوسری اننگز میں ناقابل شکست اوپننگ پارٹنر شپ میں امام الحق نے عبداللہ شفیق کے ساتھ مل کر 252  رنز بنائے ۔

راولپنڈی کرکٹ گرائونڈ کی بیٹنگ وکٹ پر دونوں ٹیموں کے بیٹرز نے شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ پاکستان کی جانب سے امام الحق نے اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری مکمل کی اور 157  رنز بنا کر آئوٹ ہوئے جبکہ اظہر علی نے شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے 185 رنز کی اننگز کھیلی ۔ پاکستان نے اپنی پہلی اننگز چار وکٹوں کے نقصان پر 476 رنز بنا کر ڈیکلیئر کر دی تھی ۔ پیٹ کمنز نے  وکٹیں حاصل کرنے کیلئے آٹھ بولرز آزمائے لیکن انہیں  وہ  کوئی بہتر نتیجہ نہیں ملا ۔

جوابی اننگز میں آسٹریلوی کھلاڑی عثمان خواجہ اور لبوشین نروس نائنٹیز کا شکار ہوئے۔  لبوشین 10 اور عثمان خواجہ اپنی جائے پیدائش میں صرف تین رنز کی کمی سے سنچری بنانے کا کارنامہ انجام نہ دے پائے۔ عثمان نے 97  ‘ لبوشین نے 90  ‘ اسٹیو اسمتھ نے 78 رنز  اور کیمرون گرین نے 48  رنز کی عمدہ اننگز کھیلی ۔ پاکستانی اسپنر نعمان علی نے بارش کی وجہ سے اس وکٹ سے کچھ فائدہ اٹھایا ۔

انہوں نے عثمان خواجہ ‘ اسٹیو اسمتھ ‘ کیمرون گرین اور الیکس کیری کو شکار کیا۔ پاکستانی بولرز کو بھی وکٹ حاصل کرنے کیلئے خاصی محنت کرنا پڑی تھی ۔ آسٹریلوی ٹیم کی پہلی اننگز کی  بساط 459 رنز پر لپٹ گئی تھی ۔ نعمان  علی نے چھ اور شاہین آفریدی نے دو وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان کو پہلی اننگزمیں  17 رنز کی برتری ملی تھی۔

 پاکستان کے اوپنرز امام الخق اور عبداللہ شفیق نے دوسری اننگز میں انتہائی پر اعتماد بیٹنگ کی اور پہلی وکٹ کی شراکت میں 252 رنز بنائے۔  اس دوران عبداللہ نے اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری مکمل کرنے کا کارنامہ انجام دیا ۔ انہوں نے صرف تیسرے ٹیسٹ میں یہ اعزاز حاصل کیا ۔ امام الحق نے بھی اپنی دوسری ٹیسٹ سنچری بنائی ۔ عبداللہ شفیق 136 اور امام الحق 111 رنز پر ناٹ آئوٹ رہے ۔ دوسری اننگز میں بھی کمنز نے 9 بولرز کو آزمایا تھا لیکن وہ پاکستانی اوپنرز کے مضبوط دفاع میں شگاف ڈالنے میں ناکام رہے۔

 امام الحق ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے کا کارنامہ انجام دینے والا 10 پاکستانی بیٹسمین ہے۔ ان سے قبل ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں 88  مواقع پر بلے بازوں نے ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بننے کا کارنامہ انجام دیا ہے ۔

امام الحق سے قبل آسٹریلوی ٹیم میں شامل عثمان خواجہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے آخری کھلاڑی تھے جنہوں نے انگلینڈ کے خلاف ایشز سیریز کے سڈنی ٹیسٹ میں دونوں اننگز میں بالترتیب  137  اور 101رنز ناٹ آئوٹ بنائے تھے۔  امام الحق کے چچا انضمام الحق کو بھی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے کا اعزاز حاصل ہے ۔ بھارت کے سنیل گواسکر‘ آسٹریلیا کے رکی پونٹنگ اور ڈیوڈ وارنر کو تین تین مرتیہ دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے کااعزاز حاصل ہے ۔

 پاکستان کی جانب سے لٹل ماسٹر یہ کارنامہ انجام دینے والے پہلے کھلاڑی تھے جنہوں نے  انگلینڈ کے خلاف 1961-62 کے ڈھاکہ ٹیسٹ میں دونوں اننگزمیں سنچریاں بنائی تھیں ۔ان کے بعد  جاوید میاں داد نے نیوزی لینڈ کے خلاف  نیاز اسٹیڈیم حیدر آباد ‘انضمام الحق نے انگلینڈ کے خلاف  اقبل اسٹیڈیم فیصل آباد‘محمد یوسف نے ویسٹ انڈیزکے خلاف نیشنل اسٹیڈیم کراچی ‘ وجاہت اللہ واسطی  نے سری لنکا کے خلاف قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ایشین ٹیسٹ چیمپئش شپ میں ‘ یونس خان نے آسٹریلیا کے خلاف متحدہ عرب امارات میں ‘ مصباح الحق نے آسٹریلیا کے خلاف دبئی ٹیسٹ میں ‘ یاسر حمید نے بنگلہ دیش کے خلاف نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں اور   اظہر علی نے آسٹریلیا کے خلاف  2014-15 میں دونوں اننگز میں سنچریاں بنائی ہیں ۔

 سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ نوجوان  کھلاڑی عبداللہ شفیق نے اپنے تیسرے ٹیسٹ میچ میں پہلی سنچری جڑ دی  ۔ وہ ایک قابل اعتماد  اوپنر ہیں ‘اگر وہ اسی لگن  اور انہماک کے ساتھ بیٹنگ کرتے رہے تو مستقبل میں پاکستانی ٹیم کیلئے بڑا اثاثہ ثابت ہوں گے ۔

راولپنڈی میں پہلی بار دونوں ٹیمیں اکتوبر  1994   میں مدمقابل آئی تھیں اور یہ ٹیسٹ میچ ڈرا ہو گیا تھا ۔ اس ٹیسٹ میں پاکستان کےکپتان سلیم ملک اور آسٹریلوی کپتان مارک ٹیلر تھے۔ ڈیمین فلیمنگ نے اپنے ڈیبیو ٹیسٹ میں ہیٹ ٹرک کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا جب انہوں نے دوسری اننگز میں عامر ملک‘ انضمام الحق اور سلیم ملک کو شکارکیا تھا ۔ آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں مائیکل سلیٹر 110 رنز ‘ اسٹیو وا 98 رنز ‘ مائیکل بیون 70  ‘ مارک ٹیلر 69  مارک وا 68  اور ایان ہیلی 58  رنز کی مدد سے 9 وکٹوں پر 521 رنزکا پہاڑ کھڑا کر دیا تھا۔

پاکستانی فاسٹ بولرمحسن کمال نے تین ‘ وقار یونس اور عامر سہیل نے دو دو کھلاڑی آئوٹ کیے تھے ۔ جواب میں پاکسانی کرکٹ ٹیم پہلی اننگز میں گریگ میکڈرمٹ اور ڈیمین فلیمنگ کی تباہ کن بولنگ کے سامنے 260  رنز پر آئوٹ ہو کر فالو آن ہو گئی تھی جس میں عامر سہیل 80 وسیم اکرم 45  سلیم ملک 33  رنز کے ساتھ نمایاں تھے۔ ڈیبیو کرنے والے آسٹریلوی فاسٹ بولر ڈیمین فلیکنگ نے اپنے اولین ٹیسٹ میں تباہ کن بولنگ کا مظاہرہ کیا تھا ۔ میکڈرمٹ اور فلیمنگ نے چار چار کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا ۔

دوسری اننگز میں پاکستان کےبلے بازوں نے انتہائی ذمہ دارانہ کارکردگی پیش کی جس میں کپتان سلیم ملک نے  237 رنز کی شاندار اننگز کھیلی جو آسٹریلیا کے خلاف آج بھی پاکستانی کھلاڑی کی سب سے بڑی انفرادی اننگز ہے۔ پاکستان نے دوسری اننگز میں سعید انور 75  ‘ عامر سہیل 72  عامر ملک اور راشد لطیف 38 رنز کی بدولت  537 رنز جوڑے تھے۔

ڈیمین فلیمنگ اس اننگز میں بھی حاوی رہے جنہوں نے تین وکٹیں حاصل کی تھیں۔ آسٹریلوی کپتان نے 10 بولرز کو آزمایا تھا صرف وکٹ کیپر ایان ہیلی نے بولنگ نہیں کی تھی  ۔ پاکستان  نے آسٹریلیا کو جیتنے کیلئے 277 رنز کا ٹارگٹ دیا تھا لیکن وقت نہ ہونے کی وجہ سے میچ ڈرا ہو گیا ۔ آسٹریلیا نے دوسری اننگز میں ایک وکٹ پر 14 رنز بنائے تھے۔

ڈیمین فلیمنگ  ڈیبیو ٹیسٹ میں ہیٹ ٹرک کرنے والے دنیا کے تیسرے بولر تھے ۔ ان سے قبل  انگلینڈ کے موریس الوم نے 1929-30  میں  اور نیوزی لینڈ کے یٹر پیتھرک نے 1976-77  میں  اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں ہیٹ ٹرک  کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا ۔ الوم نے یہ کارنامہ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے خلاف انجام دیا تھا ۔

 لنکاسٹر پارک کرائسٹ چرچ میں نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم نئی تھی اور پہلا ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھی۔ فاسٹ بولر الوم نے ایک اوور میں چارکھلاڑیوں کو شکار کیا تھا۔ وہ ٹیسٹ ڈیبیو میں ہیٹ ٹرک کرنے والے دنیا کے پہلے بولر تھے ۔ انہوں نے پانچ گیندوں پر چار کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی تھی اور کسی بولر کے پانچ گیندوں پر چار کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے کا پہلا واقعہ تھا ۔ بعد میں انگلینڈ کے کرس اولڈ  اور  پاکستانی فاسٹ بولر وسیم اکرم نے بھی پانچ گیندوں پر چار کھلاڑیوں کو شکار کیا تھا ۔ کرس اولڈ نے پاکستان کے خلاف ایجبسٹن ٹیسٹ میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا لیکن وہ ہیٹ ٹرک کا اعزاز حاصل نہیں کرپائے  تھے ۔

 نیوزی لینڈ کے آف  اسپنر پیٹر پیتھرک نے پاکستان کے خلاف اکتوبر 1976 میں لاہور کے قذاقی اسٹیڈیم میں اپنے ڈیبیو ٹیسٹ میں یہ  کارنامہ انجام دیا تھا  ۔ انہوں نے میچ کے پہلے روز جاوید میاں داد‘ وسیم راجہ اور انتخاب عالم کو شکار کیا تھا ۔

 آسٹریلوی کرکٹ ٹیم 1998 میں مارک ٹیلر کی قیادت میں پاکستان آئی تھی تو راولپنڈی میں تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ کھیلا گیا تھا جو آسٹریلیا نے ایک اننگز اور 99 رنز کے بڑے مارجن سے جیتا تھا اور اس کی وجہ سے آسٹریلیا سیریز بھی جیت گیا تھا کیونکہ باقی دو ٹیسٹ ڈرا ہو گئے تھے ۔

اس میچ میں مہمان ٹیم نے کھیل کے تمام شعبوں میں پاکستانی ٹیم کو آئوٹ کلاس کر دیا تھا۔ پاکستانی کپتان عامر سہیل تھے۔  پاکستانی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 269 پر ڈھیر ہو گئی تھی۔ اس وکٹ پر پاکستانی بلے باز اسپنر اسٹٹیورٹ  میکگل کی گھومتی گیندوں کے سامنے جم کر نہیں کھیل پائے تھے ۔  سعید انور نے 145 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر ٹیم کی لاج رکھ لی تھی ۔ معین خان 39 رنز دوسرا بڑااسکور تھا ۔  پاکستان کے آٹھ کھلاڑی 247  رنز پر پویلین لوٹ چکے تھے ۔

اس مرحلے پر سعید انور نے مشتاق احمد کے ساتھ مل کر نویں وکٹ کی شراکت میں 120  قیمتی رنز  جوڑے ۔  مشتاق احمد نے 26  رنزبنائے تھے ۔ میک گل نے 66 رنز دے کر پانچ اورمیگرا نے دو کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا ۔

 آسٹریلیا کی پہلی اننگز کا آغاز اچھا نہیں تھا۔  وسیم اکرم نے  مارک ٹیلر اور جسٹن لینگر کو آئوٹ کرکے بڑا دھچکہ پہنچایا تھا ۔ پھر مشتاق احمد نے مارک وا کو صفر پر پویلین بھیج دیا تھا ۔ آسٹریلیا کے تین کھلاڑی 28 رنز پر آئوٹ تھے اس مشکل مرحلے میں اسٹیو وا نے مائیکل سلیٹر کے ساتھ ٹیم کی پوزیشن کو ناصرف مستحکم کیا بلکہ دونوں نے چوتھی وکٹ کی شراکت میں 198 رنز بنائے۔ سلیٹر 108  اور  اسٹیو وا نے 158 رنز جوڑے۔

اسٹیو وا نے ڈیرن لیہمن کے ساتھ بھی عمدہ پارٹنر شپ کی تھی جس میں 126 رنز کااضافہ کیا تھا ۔ لیہمن نے ایان ہیلی کے ساتھ 93 رنز کی پارٹنر شپ کی لیہمن بد قسمتی سے دو رنز کی کمی سے سنچری مکمل نہ کر پائے اور محمد حسین کی گیند پر 98  رنز بنا کر آئوٹ ہوئے ۔ ہیلی نے ٹیم کا اسکور اگئے بڑھایا اور وہ 82 رنزبنا کر سب سے آخر میں آئوٹ ہوئے ۔ آسٹریلیا نے 513 رنزبنا کر پاکستان پر 244 رنزکی برتری حاصل کر لی تھی  ۔

دوسری اننگز میں پاکستانی کھلاڑی بھاری برتری کا دبائو برداست نہیں کر پائے اور ابتدائی چارکھلاڑی آسٹریلوی بولرز میگرا فلیمنگ اور کولن ملر کا شکار ہوئے اس وقت اسکور32  تھا ۔ محمد وسیم اورانضمام صفر پر آئوٹ ہوئے تھے۔ اس کے بعد میکگل ایک بار پھر پاکستانی بلے بازوں کو چکمہ دے کر پویلین پہنچانے لگے ۔ سلیم ملک ان کے سامنے ڈٹے رہے جنہوں نے 52رنزناٹ آئوٹ بنائے اور پوری پاکستانی ٹیم کی بساط صرف 145 رنزپر لپٹ گئی۔ میکگل نے47  رنزدے کر چار اور میگرا‘ فلیمنگ اورملرنے دو دو کٹیں لیں۔

میکگل کا یہ دوسرا ٹیسٹ میچ تھا جس میں انہوں نے غیر معمولی کارکردگی پیش کرتے ہوئے آسٹریلیا کی فتح میں مرکزی کردار ادا کیا تھا ۔ اسٹیورٹ میکگل نے  30  جنوری 1998 کو جنوبی افریقہ  کے خلاف  ایڈیڈلیڈ ٹیسٹ میں ڈیبیو کیا تھا۔

 رائولپنڈی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں ایان ہیلی نے ٹیسٹ کرکٹ میں  وکٹوں کے پیچھے سب سے زیادہ کھلاثیوں کو شکار کرنے کا ہم وطن روڈنی مارش کا عالم یریکارڈ توڑا تھا ۔ مارش نے 96 ٹیسٹ میچزمیں 355 شکار کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا ۔

 آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا یہ نواں دورہ پاکستان ہے ۔ پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ تقریباً سات دہائیوں پر مشتمل ہے جس میں دونوں ملکوں کے مابین 66 ٹیسٹ میچز کھیلے گئے۔ آسٹریلیا کا پلہ 33 فتوحات کے ساتھ بھاری ہے جبکہ پانچ نے 15 ٹیسٹ میچ جیتے ہیں۔

دونوں ملکوں کے مابین یہ 27 ویں ٹیسٹ سیریزہے ۔ دونوں ٹیموں نے اپنے اپنے ہوم گرائونڈ پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم آسٹریلوی سرزمین پر کوئی ٹیسٹ سیریر نہیں جیت پائی ہے تاہم آسٹریلیا نے پاکستان میں دو ٹیسٹ سیریز جیتنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کو پاکستانی سرزمین پر زیادہ کامیابیاں نہیں ملی ہیں ۔ آسٹریلیا نے اپنے ہوم گرائونڈ پر 26 ٹیسٹ میچ جیتے جبکہ پاکستان میں اسے صرف دو کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں مہمان ٹیم نے نیوٹرل گرائونڈز پر پانچ ٹیسٹ میچ جیتے ہیں۔

پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا میں چار ٹیسٹ میچ جیتے ہیں جس میں فاسٹ بولر سرفزازنواز کی تاریخی کارکردگی والا میلبورن ٹیسٹ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے 9 کھلاڑیوں کو آئوٹ کرکے پاکستان کی یقینی شکست کو فتح میں تبدیل کر دیا تھا ۔ اس ٹیسٹ میچ میں ایلن بارڈر آہنی دیوار بنے ہوئے تھے۔ پاکستان نے ہوم گرائونڈ پر سات اور نیوٹرل گرائونڈز پر چار ٹیسٹ میچ اپنے نام کیے ہیں۔ 18 ٹیسٹ میچ ڈراہوئے۔

 آسٹریلوی ٹیم نے پاکستان کا پہلا دورہ 1956-57 میں کیا تھا جب ٹیم آل رائونڈر ایان جانسن کی  قیادت میں آئی تھی اور سیریز کا واحد ٹیسٹ میچ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا تھا جو پاکستان نے 9 وکٹوں سے جیتا تھا۔

پاکستانی فاسٹ بولر فضل محمود نے دونوں اننگز میں تباہ کن بولنگ کرتے ہوئے 13  کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا ۔ رواں سیریز کا دوسرا ٹیسٹ میچ 12 مارچ سے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں شروع ہو گا ۔



from SAMAA https://ift.tt/oZU4Hyc

No comments:

Post a Comment

Reality TV Takes Washington (Again)

By Jessica Grose from NYT Opinion https://ift.tt/E7rImt9