
محکمہ صحت سندھ نے زچہ و بچہ کی ویکسینیشن اور اموات میں کمی کیلئے کراچی کی 8 انتہائی حساس یونین کونسلز میں حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی رجسٹریشن کا عمل شروع کردیا۔ وزیر صحت سندھ کا کہنا تھا کہ کراچی گنجان شہر ہے، اس لئے اسپتالوں کی کمی ہے، اسپتالوں کی تعمیر کیلئے جگہ نہیں مل رہی، لانڈھی میں جلد نیا کالج اور اسپتال قائم کریں گے۔
حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کے صوبائی دفتر (ای پی آئی) میں وزیر صحت سندھ عذرا فضل پیچوہو نے زچہ و بچہ کی صحت اور اس کی رجسٹریشن کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کی صدارت کی، جس میں بتایا گیا کہ یہ پروجیکٹ انٹرایکٹو ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے، اس پروجیکٹ میں سندھ کی 8 انتہائی حساس یونین کونلسز میں تمام حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کو ڈیجیٹل شناخت کے ساتھ سہولیات فراہم کرنا، ویکسی نیٹرز سے لنک کرنا، پولیو ویکسینیشن کی پیدائشی خوراک کیلئے یونیورسل امیونائزیشن کوریج حاصل کرنا، دیگر معمول کے حفاظتی ٹیکوں، حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کیلئے صحت کی سہولیات کو بہتر بنانا شامل ہے۔
اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ یہ پروجیکٹ ایس ایم ایس یاد دہانیوں کے ذریعے قبل از پیدائش کی دیکھ بھال، حاملہ خواتین میں ویکسینیشن کوریج بڑھانے، صحت کے نظام، قومی ڈیٹا بیس میں نوزائیدہ بچوں کے اندراج، بی سی جی ویکسینیشن کی بروقت فراہمی کو بہتر بنانے اور او پی وی او ویکسینیشن کی کوریج اور اسے یقینی بنانے میں کامیاب رہا ہے۔
صوبائی وزیر صحت کو بتایا گیا کہ پاکستان میں ہر ایک لاکھ بچوں میں سے 146 بچے انتقال کرجاتے ہیں، جنوبی ایشیا میں یہ تعداد 163 اور شمالی امریکا میں صرف 18 ہے، پاکستان میں پیدا ہونیوالے ہر ایک ہزار میں سے 42 نومولود بچے انتقال کرجاتے ہیں، جنوبی ایشیا میں تعداد 26 اور شمالی امریکا میں صرف 4 ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 31 فیصد حاملہ خواتین کو ٹیٹنس کیخلاف ویکسین نہیں لگتی ہے، دو سال سے کم عمر 61 فیصد بچے رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں، 28 دن کے 39 فیصد بچوں کو پیدائش کا ٹیکہ (بی سی جی) نہیں لگایا گیا، 48 فیصد بچوں کو پیدائش کے 28 دن تک پولیو کے حفاظتی قطرے ہی نہیں پلائے گئے جو نومولود بچوں میں اموات کی بڑی وجہ ہے۔
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے سابق ڈائریکٹر ہیلتھ ڈاکٹر اکرم سلطان کی اس حولے سے کوششوں کو سراہا اور کہا کہ ماؤں اور نومولود بچوں کی اموات کی روک تھام کیلئے نجی ادارے آئی آر ڈی کے تعاون سے 8 انتہائی حساس یونین کونسلز میں رجسٹریشن کا عمل شروع کیا گیا تاکہ یہاں حاملہ خواتین اور بچوں کی ویکسینیشن کی کوریج کو بہتر کیا جاسکے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا ان یونین کونسلز کے اُن اسپتالوں سے حاصل کیا گیا ہے جہاں بچوں کی پیدائش ہوتی تھی، ان اسپتالوں میں حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی رجسٹریشن کی گئی اور انہیں اسپیشل کیو آر کوڈ دیا گیا، جو ان کے امیونائزیشن کارڈ پر بھی درج ہے، اس کوڈ کی وجہ سے ان بچوں کو روٹین ویکسینیشن کیلئے ٹریک کیا گیا، اس پروجیکٹ کے دوران 36 ہزار 797 حاملہ خواتین کی رجسٹریشن ہوئی، 51 ہزار مرتبہ ان کا فالو اپ چیک اپ کیا گیا، اس دوران امیونائزیشن کی شرح بہت اچھی رہی، یہ پروجیکٹ کافی مفید ثابت ہورہا ہے، اس پروگرام کو متواتر چلانے کی ضرورت ہے، ہم چاہتے ہیں گھروں یا نجی اسپتالوں میں بھی پیدا ہونیوالے بچوں کی ایسے رجسٹریشن ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ان تمام بچوں کو صحت کی تمام سہولیات، ویکسینیشن اور پولیو کے قطرے پلانے میں مدد ملے گی، ان بچوں کی صحت سے متعلق بھی ہم آگاہ رہیں گے، یہ ڈیٹا ڈیموگرافک ایریا ہے، یہ صرف صحت کا مسئلہ نہیں ہے، وفاقی سطح پر بھی یہ رجسٹریشن ہونی چاہئے اور نادرا کو بھی اس کا حصہ ہونا چاہئے، اس کیلئے ہم نادرا سے بھی بات کریں گے، اگر کسی قانون سازی کی ضرورت ہوئی تو اس پر بھی غور کریں گے، اگر کوئی رجسٹریشن نہیں کروائے گا تو اسے مجرمانہ عمل سمجھا جائے گا، اس قانون کے ذریعے ویکسینیشن کو قانونی تحفظ دیں گے اور کوئی ویکسینیشن نہیں کروائے گا تو اس پر قانون توڑنے کی دفعہ لگائی جائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر صحت نے کہا کہ کراچی گنجان شہر ہے، اس لئے اسپتالوں کی کمی ہے، اسپتالوں کی تعمیر کیلئے جگہ نہیں مل رہی، لانڈھی میں میڈیکل کالج بن رہا ہے، اس کے ساتھ جگہ موجود ہے جہاں ایک نیا اسپتال قائم کریں گے، گزشتہ دو دہائیوں کے دوران انڈس اور اوجھا اسپتال بنے تھے، ایسا نہیں ہے کہ صرف جناح اور سول پر ہی دباؤ ہے، جناح اسپتال میں سہولیات کو بڑھا رہے ہیں، اسی طرح نیپا پر انفیکشیئس ڈیزیز انسٹیٹیوٹ نیا بنا ہے، نیپا پر ڈینٹل کالج اور اسپتال بھی بن رہا ہے، ملیر میں بھی نیا اسپتال بنارہے ہیں، اسپتال آہستہ آہستہ بنتے ہیں، تھوڑا وقت لگتا ہے، اندرون سندھ میں بھی اسپتال بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ کراچی کے اسپتالوں پر دباؤ میں کمی آئے۔
عذرا فضل پیچوہو نے بتایاکہ سکھر میں بچوں کا اسپتال تیار ہوگیا، دسمبر میں آپریشنل ہوجائے گا، جامشورو میں بچوں کا نیا اسپتال بن رہا ہے، اس کے علاوہ اندرون سندھ دوسری بیماریوں سے متعلق 4 بڑے اسپتال بھی بنارہے ہیں، ایک بی آئی یو ٹی شہید بے نظیر آباد میں بنایا جو جلد فعال ہوجائے گا، لاڑکانہ میں ایس آئی یو ٹی کی سروسز شروع کردیں تاکہ کراچی پر دباؤ میں کمی ہو، دل کے اسپتال بھی بنائے ہیں۔
from SAMAA https://ift.tt/NjvMIbJ
No comments:
Post a Comment