قوم آج 14 اگست کو مملکت خدا داد پاکستان کی 75 ویں سالگرہ قومی و ملّی جوش و جذبے کے ساتھ منانے جارہی ہے، زندہ قومیں اپنے ملک کی آزادی کا جشن تجدید عہد کے ساتھ سجدہ شُکر ادا کرکے منایا کرتی ہیں۔
قوم کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہمیں آزادی پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی گئی، اِس آزادی کی راہ میں ہمارے بزرگوں نے بے مثال قربانیاں پیش کی تھیں، لاکھوں خواتین، بچوں اور بزرگوں کو آگ و خون کے دریا میں سے گزرنا پڑا، آزادی کا حصول یقیناً ایک بہت مشکل مرحلہ تھا، اِس میں خداوند تعالیٰ کی رحمت و رہنمائی و مدد حاصل تھی۔
پاکستانیوں کیلئے 14 اگست ایک خاص اہمیت کا حامل اور حب الوطنی کے جذبے سے بھرپور دن ہے، یہ صرف ایک دن ہی نہیں بلکہ خاص تہوار بھی ہے، جس دن پاکستان معرض وجود میں آیا، پاکستان کرۂ ارض کا وہ واحد ملک ہے جس کی بنیاد ایک نظریے پر رکھی گئی اور برسہا برس کی جدوجہد کے بعد ایک خدا، ایک رسولﷺ اور ایک قرآن پر ایمان رکھنے والوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں علیحدہ وطن اِس نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں جن کی طرز زندگی، ثقافت اور مذہب سب سے الگ ہے۔ آزادی کے حصول کیلئے برصغیر کے مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دیں اور بے مثال جدوجہد کی، یہ اُن کا دو قومی نظریے پر غیرمتزلزل ایمان و یقین کا واضح ثبوت تھا جس کے نتیجے میں بالآخر پاکستان وجود میں آیا۔
بحیثیت قوم ہمیں یقین رکھنا ہونا چاہئے کہ قائداعظم کا ہر لفظ ہمارے لئے حکم کا درجہ رکھتا ہے اور ان کے فرمودات کی پاسداری اور ان کے دکھائے ہوئے راستے پر چل کر ہی ہم ایک پائیدار اور مستحکم مملکت کی منزل حاصل کرسکتے ہیں۔ ریاستِ پاکستان کیا ہوگی؟، اس میں طرز حکومت کونسا ہوگا؟، یہاں مختلف شعبوں اور اداروں کے فرائض منصبی کیا ہوں گے؟، نئی مملکت اپنی معیشت اور تجارت کو کیسے مضبوط بناسکے گی؟، ہمسایوں سے تعلقات کیسے ہوں گے؟، ترقی یافتہ اقوام عالم کی صفوں میں اپنا مقام ہم کیسے بناسکیں گے؟، ریاست اوراس کے نظام کے بارے میں قائداعظم بہت تفصیل کے ساتھ قوم کو آگاہی اور شعور دے گئے تھے، مگر ہم وہ قوم ہیں جو قائد کے فرمودات کو فراموش کے اس کے برعکس اقدامات کرتے رہے۔
آئین کیسا ہوگا؟، پاکستان کی آئینی حیثیت اور پارلیمنٹ کے فرائض منصبی کے حوالے سے قائد نے فرمایا۔ ‘‘یاد رکھیے کہ آپ خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو جملہ اختیارات حاصل ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یعنی آپ فیصلے کس طرح کرتے ہیں، حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے’’۔
قائداعظم محمد علی جناح کی توجہ اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ پر بھی تھی انہوں نے فرمایا۔ ‘‘اقلیتوں کا تحفظ کیا جائے گا ان کا تعلق خواہ کسی فرقے سے ہو، ان کا مذہب یا دین یا عقیدہ محفوظ ہوگا، ان کی عبادت کی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی، انہیں اپنے مذہب، عقیدے، اپنی جان اور اپنے تمدن کا تحفظ حاصل ہوگا، وہ بلا امتیاز ذات پات اور عقیدہ ہر اعتبار سے پاکستان کے شہری ہوں گے’’۔
ڈھاکہ میں 21 مارچ 1948ء کو جلسۂ عام سے خطاب میں قائداعظم نے نوجوانوں کو اپنی طاقت قرار دیا۔ ‘‘میرے نوجوان دوستو! میری نظریں آپ کو حقیقی معمارانِ پاکستان کے روپ میں دیکھ رہی ہیں نہ اپنا استحصال ہونے دیجیے اور نہ خود کو راہ سے بھٹکنے دیجیے، اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور یگانگت رکھیے، آپ کا اصل کام یہ ہے کہ آپ مطالعہ پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں یہی آپ کا اپنی ذات، والدین اور مملکت کے ساتھ دیانت کا تقاضا ہے’’۔
قیام پاکستان کے مقاصد’ اس کے نظریہ اور نظام کے حوالے سے قائداعظم کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں تھا چنانچہ وہ قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران ہر مرحلے پر مسلمانانِ برصغیر اور دنیا کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرتے رہے۔ قائد اعظم نے اسلامیہ کالج پشاور میں 13 جنوری 1948ء کی تقریر میں کہا تھا۔ ‘‘ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا’ بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے’ جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزماسکیں’’۔
قائد کی رحلت کے بعد ‘‘کھوٹے سکوں’’ نے اپنے مفادات کی بجا آوری میں پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے بجائے مسائل کی آماجگاہ بنادیا، قوم میں اتحاد پیدا کرنے کی اولین ذمہ داری سیاستدانوں کی ہے مگر سیاست میں آج جو انتشار اور خلفشار پایا جاتا ہے، ایسا ماضی میں خال خال ہی دیکھنے میں آیا ہے، سیاستدانوں کے عدم برداشت کے رویے قوم کو تقسیم کر رہے ہیں۔ تحمل اور برداشت کی جگہ نفرت لے رہی ہے، اختلافات ذاتی دشمنیوں تک جا رہے ہیں، آج پاکستان کو سیاسی عدم استحکام، اداروں کا باہمی ٹکراؤ، بدعنوانی، توانائی کا بحران، صوبوں اور وفاق کے درمیان دوریاں، عسکریت پسندی اور انتہاء پسندی جیسے سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی غربت، مہنگائی اور بیروزگاری نے پاکستانی عوام کا جینا محال کررکھا ہے۔
ایک عام پاکستانی، غریب، سفید پوش، مزدور ٹیکس ادا کرکے پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے بدلے میں وہ سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اتنا ٹیکس دینے کے بعد بھی ریاست ایک عام شہری کے بچوں کو ڈھنگ کی مفت تعلیم نہیں دے رہی، بیماری میں مناسب علاج نہیں ملتا۔ حالت یہ ہے کہ 50 فی صد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
جبکہ دوسری طرف صدر مملکت، وزیراعظم، وزراء، مشیران و معاونین کی سیکیورٹی اور پروٹوکول کا سالانہ خرچ 45 کروڑ 43 لاکھ روپے ہے، عدلیہ کا خرچ 30 کروڑ 45 لاکھ روپے اور اسلام آباد پولیس کا سیکیورٹی کی مد میں خرچ 95 کروڑ 46 لاکھ روپے ہے، پاکستان کی پارلیمان میں جاگیرداروں اور کارپوریٹ مالکان کی بھرپور نمائندگی ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
عالمی ادارے (UNDP) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کے 26 کھرب 60 ارب روپے (17.4 ارب ڈالر) اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہوتے ہیں، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار، سیاسی طبقہ اور اسٹیبلشمنٹ سمیت پاکستان کی اشرافیہ کو دی جانیوالی معاشی مراعات ملکی معیشت کا 6 فیصد ہیں جو تقریباً 17.4 ارب ڈالر بنتے ہیں۔
قائداعظم نے ہمیں ہر وہ راستہ دکھایا جو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جاتا تھا اور ہر اس رجحان سے خبردار کیا جو قوموں کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ بنتا ہے، مگر ہم 75 سال سے ان سنہری اصولوں سے رو گردانی کرتے آرہے ہیں، جن منفی عوامل سے انہوں نے گریز کا مشورہ دیا وہی ہماری قومی عادت بن گئی، ہم منظم نہیں بلکہ منتشر جتھے بن کر رہ گئے ہیں، ہم نے اقرباء پروری، انفرادیت، ذاتی اور گروہی مفادات کو ترجیح دی ہے، عدل انصاف ہماری ترجیح نہیں رہی، سیاسی مفادات، قومی مفادات پر غالب رہے ہیں، ملک کو مختلف مافیاؤں کے رحم و کرم چھوڑ دیا گیا ہے، جس سے عوام نڈھال، حکومت بے بس اور نظام ڈانوا ڈول رہتا ہے۔ ایک جملے میں اگر بات کی جائے تو ہم بحیثیت قوم ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب تیزی سے محوِ سفر ہیں۔
تنزلی کی وجہ قیامِ پاکستان کے مقصد اور قائداعظم کے اُصولوں سے انحراف ہے، آزادی کے بعد آج تک کے سفر کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہم آگے نہیں پیچھے کی جانب گامزن ہیں، 75 سال ہم نے غفلت کی نظر کردیئے ہیں، یہ وہ پاکستان نہیں جسے حاصل کرنے کیلئے ہمارے بزرگوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے لیکن اِن وسائل کو بروئے کار لانے کی بجائے ہم نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
ملک کے سیاسی قائدین کو سوچنا ہوگا کہ آج تک ہم وہ مقاصد کیوں حاصل نہیں کر پائے جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ خطۂ اراضی حاصل کیا تھا، آج ہمیں اُس ہی جذبہ حب الوطنی کی ضرورت ہے جو تحریک پاکستان میں ہمارے اجداد کے خون میں دوڑتا تھا، ہمیں قومیتوں اور برادیوں سے نکل کر ایک قوم بننا ہوگا، ہم نے آج تک جو دانستہ یا نادانستہ غلطیاں، کوتاہیاں کی ہیں ان کا ازالہ کرنا ہوگا اور یہ عہد کرنا ہوگا کہ 25 سال بعد جب ہم پاکستان کی 100ویں سالگرہ منارہے ہوں تو غربت کا خاتمہ کرچکے ہوں گے، تعلیم اور صحت کے شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں آچکی ہوں گی، پاکستان کا نوجوان طبقہ ملک کا اثاثہ ثابت ہوگا، انصاف سب کیلئے ایک جیسا ہوگا، ہم برادیوں اور قومیتوں سے نکل کر ایک سیسہ پلائی ہوئی قوم بن جائیں گے، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا، سیاستدان بھی عقل، شعور اور سمجھ داری کا مظاہرہ کریں گے، اپنی شکست کو تسلیم کریں گے اور جیتنے والوں کے ہاتھ مضبوط کریں گے، معیشت بھی مستحکم اور مضبوط ہوگی، ہماری خارجہ پالیسی ایسی ہوگی کہ دنیا کے تمام ممالک ہمیں عزت اور احترام کی نظر سے دیکھیں گے، پارلیمنٹ میں جمہور اور جمہوریت کی نمائندگی ہوگی، اس سب کے بعد ہم قائداعظم محمد علی جناح کے فرمودات پر عمل کرتے ہوئے بہتر قوم بن سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘‘مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد، یقینِ محکم اور تنظیم ہی وہ بنیادی نکات ہیں جو ناصرف یہ کہ ہمیں دنیا کی پانچویں بڑی قوم بنائے رکھیں گے بلکہ دنیا کی کسی بھی قوم سے بہتر قوم بنائیں گے’’۔
پاکستان زندہ باد۔ پائندہ باد
from Samaa - Latest News https://ift.tt/fk5Zu9G
No comments:
Post a Comment