وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ نہیں کیا,مریم اورنگزیب

وزیراعظم شہباز شریف کے قومی اسمبلی سےاعتماد کا ووٹ لینے کی خبروں کے بعد رہنما مسلم لیگ نون مریم اورنگزیب کا اہم بیان بھی سامنے آگیا ہے ۔

انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹؤیٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ نہیں کیا،ایسی مشاورت ہوئی نہ اس کی ضرورت ہے۔ عوام، پارٹی،اتحادی جماعتوں کے متفقہ امیدوار شہباز شریف 11 اپریل 2022 کو قومی اسمبلی کے قائد ایوان کا ووٹ لے چکے ہیں۔ من گھڑت افواہ حقیقت نہیں۔ میڈیا بغیر تصدیق وزیراعظم سے متعلق خبریں نہ چلائے۔

واضح رہے کہ خبر آئی تھی کہ وزیراعظم شہبازشریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے پر غور شروع کر دیا ہے۔

پنجاب میں عام انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کی ڈیڈ لائن کے بعد موجودہ ملکی صورتحال میں وزیراعظم شہباز شریف کو اتحادیوں نے بڑا مشورہ دیدیا۔

وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے پر غور شروع کر دیا ہے، اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے وزیراعظم وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مشاورت کریں گے۔

اتحادیوں کی طرف سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کے ارکان سپریم کورٹ میں پیش ہوں۔ اُدھر شہباز شریف تمام اہم سیاسی فیصلے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے کریں گے۔

خیال رہے کہ 90 روز میں انتخابات کروانے کا معاملہ عدالت پہنچنے سے پہلے سیاسی محاذ آرائی کا سبب بنا ہوا تھا مگر سپریم کورٹ کی انٹری کے بعد اب عدالتی محاذ آرائی کا آغاز بھی ہوچکا اور عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں ملک عدالتی بحران کی لپیٹ میں بھی آسکتا ہے۔

ملکی سیاسی کشیدگی کی شدت کو کم کرنے کے لیے چیف جسٹس تمام اسٹیک ہولڈرز سے درخواست کرچکے ہیں اور اسی سلسلے میں سپریم کورٹ نے 27 اپریل تک تمام سیاسی جماعتوں کو ایک روز انتخابات کروانے پر متفق ہونے کا وقت دیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بھی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور عید کے بعد وہ کُل جماعتی کانفرنس کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے 14 مئی کو انتخابات کروانے کی تلوار کی موجودگی میں تمام جماعتوں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے سے ملک میں سیاسی کشیدگی کم ہونے کا امکان تو ہوگیا ہے لیکن تاحال کچھ معاملات ہیں جو اب بھی طے ہونے باقی ہیں۔ عمران اس حوالے سے واضح کرچکے ہیں مذاکرات صرف انتخابات کے حوالے سے ہی ہوں گے۔

مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں تحریک انصاف نے سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کررکھا ہے جس میں نہ صرف انتخابات کروانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا بلکہ تحریک انصاف اپنی انتخابی مہم کا آغاز بھی کرے گی۔

تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ ایک روز ملک بھر میں انتخابات کروانے کے لیے قومی اسمبلی بھی فوری طور پر تحلیل کی جائے جبکہ چاروں صوبوں اور وفاق میں نئی نگراں حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔

گزشتہ روز ایک انٹرویو کے دوران عمران خان نے کہا تھا کہ مئی میں قومی اسمبلی تحلیل کی جائے، جون اور جولائی میں انتخابات کروائے جائیں اور نیوٹرل نگران حکومت لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

مذاکرات میں دوسری بڑی رکاوٹ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا عمران خان سے مذاکرات نہ کرنے کا سخت مؤقف ہے۔ جے یو آئی کے سربراہ یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ عمران خان سے مذاکرات نہیں کریں گے اور سپریم کورٹ زبردستی عمران خان سے مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے کچھ حلقوں میں بھی تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت کی جارہی ہے اور اس کا اظہار مریم نواز اپنی ٹویٹ کے ذریعے بھی کرچکی ہیں، جس میں انہوں نے لکھا کہ ‏مذاکرات یا بات چیت سیاسی جماعتوں سے ہوتی ہے، دہشتگردوں اور فتنہ پھیلانے والوں سے نہیں۔ یہ بات یاد رکھیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی سیاسی جماعتوں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کے وفد کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرچکی ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ایک انٹرویو میں ملک میں قبل از وقت انتخابات کا اشارہ دے چکے ہیں اور اس سلسلے میں ہی پیپلز پارٹی کی قیادت مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے کررہی ہے۔



from Samaa - Latest News https://ift.tt/GrAyWie

No comments:

Post a Comment

Manchester Arena Bomber’s Brother Is Accused of Attack on Prison Guards

By Lizzie Dearden from NYT World https://ift.tt/Fzdnms1