متاثرین کا ملیر ایکسپریس وے منصوبے کیخلاف عدالت جانےکا اعلان

ملیر ایکسپریس وے کے متاثرین اور سماجی کارکن نے منصوبے کی تعمیر کو عدالتوں میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔

کراچی پریس کلب میں متاثرین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب میں سماجی کارکن اور سندھ ہائی کورٹ کے وکیل کاظم حسین مہیسر نے منصوبے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔

کاظم حسین مہیسرکا کہنا تھا کہ وہ ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کے خلاف سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ٹریبونل اور سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کریں گے۔ مزید کہا کہ ہم نے ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کو چیلنج کرنے کے لیے قانونی آپشنز کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ منصوبے سے شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر ماحولیاتی ایکٹ 2014 کی سراسر خلاف ورزی ہے اور پراجیکٹ انوائرمنٹل انفیکٹ اسیسمنٹ رپورٹ بھی مقامی رہائشیوں کے مسائل کا ازالہ کیے بغیر منظور کی گئی، ہم اس منصوبے کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھائیں گے۔

پاکستان ماحولیاتی تحفظ موومنٹ کے سربراہ احمد شبر کا کہنا تھا کہ وہ اس منصوبے کے خلاف دو ہفتے کے اندر اندر مقدمہ درج کرائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایکسپریس وے ملیر ندی کے کنارے پر بنایا جا رہا ہے جو مون سون کی بارشوں کے دوران ملحقہ مقامی لوگوں کے لیے بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بنے گا۔

کراچی اربن لیب کی ڈاکٹر نوشین انور نے ملیر ایکسرپیس وے کی تعمیر کو گلوبل وارمنگ میں اضافے کی وجہ قرار دیدیا۔ انہوں نے کہا کہ سبز جگہوں کا خاتمہ کراچی اور اس کے لوگوں کے لیے ایک خطرناک علامت ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران ملیر ایکسپریس وے کے سے متاثرہ محمد اسلم جو پیشے کے لحاظ سے ایک کاشتکار ہیں اور اینٹی ملیر ایکسپریس وے کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں کا کہنا تھا کہ یہ کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں بلکہ اشرافیہ طبقے کو سہولت فراہم کرنے کا ایک گیٹ وے ہے۔

دریائے ملیر کے کنارے 8 ایکڑ زرعی اراضی رکھنے والے محمد اسلم کا کہنا ہے کہ یہ زمین 60 سال سے ان کے ملکیت ہے۔ یہ ہمارے آباؤ اجداد کی زمین ہے اور ہم انہیں (سندھ حکومت) کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کا بنیادی مقصد ڈی ایچ اے، بحریہ اور کلفٹن میں مقیم بلڈر مافیا اور ایلیٹ کلاس کو سہولت فراہم کرنا ہے کیونکہ ایکسپریس وے کی تعمیر سے ارد گرد قائم مختلف ہاؤسنگ اسکیموں کی لاگت میں اضافہ ہوگا۔

محمد اسلم کا کہنا تھا کہ سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی جانب سے مقامی لوگوں کے مسائل کو حل کیے بغیر منصوبے کی منظوری عوام کے ساتھ مذاق کے سوا کچھ نہیں، ہم نے پہلے ہی سیپا کو ان سنگین نتائج کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے جو ملیر ندی کے کنارے پر ایکسپریس وے کی تعمیر کے بعد مقامی لوگوں کو درپیش ہوں گے لیکن انہوں نے ہمارے خدشات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بلڈر مافیا اور پیپلز پارٹی کے چند وزراء اس منصوبے سے مستفید ہوں گے۔

محمد اسلم کا کہنا تھا کہ ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر سے ڈیفنس اور کلفٹن کے رہائشی بھی متاثر ہوں گے کیونکہ دیگر چھوٹے دریاؤں اور جھیلوں کا پانی دریائے ملیر میں نہیں جائے گا اور مون سون کی بارشوں کے دوران چھوٹی ندیوں اور جھیلوں کا یہ پانی واپس آ کر کراچی کے پوش علاقوں میں داخل ہو سکتا ہے۔

اینٹی ملیر ایکسپریس وے کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ایکسپریس وے سے بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کے رہائشیوں کو سہولت ہو گی مگر اس پراجیکٹ سے 1000 سے زائد مقامی لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔

محمد اسلم کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق 162 ایکڑ زرعی اراضی اس منصوبے سے متاثر ہو رہی ہے اور مقامی لوگ سندھ حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ ملیر اور اس کے مضافات کے لوگوں سے ووٹ حاصل کرتی رہی ہے لیکن عوام کی خدمت نہیں کرتی۔

محمد اسلم کا کہنا ہے کہ ای آئی اے رپورٹ منصوبے کی تعمیر کے کام کے شروع ہونے کے ایک سال بعد پیش کی گئی جس سے ماحولیاتی نگراں ادارے کی بدنیاتی نیت کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے منصوبے کا ڈیزائن تبدیل کرنے کی اپیل بھی کی۔

منصوبے کے ایک اور متوقع متاثرہ شخص حفیظ بلوچ کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے والوں کے خلاف کچھ نہیں کر رہی ہیں، ملیر ایکسپریس وے کا بنیادی مقصد ڈی ایچ اے کو بحریہ ٹاؤن سے جوڑنا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس منصوبے سے ملیر کے لوگوں کو کیا ملے گا۔

حفیظ بلوچ کا کہنا تھا کہ اگر سندھ حکومت ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر پر آمادہ ہے تو وہ روٹ تبدیل کرکے ملیر ندی کے بائیں کنارے پر لے آئیں۔

واضح رہے کہ ملیر کے مقامی لوگوں نے 9 مارچ کو منعقدہ کھلی کچہری کے دوران ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور دوران ملیر ایکسپریس وے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر، سیپا کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور نیسپاک کے حکام پر مشتمل سرکاری اہلکار لوگوں کے سوالات کا جواب دیے بغیر وہاں سے چلے گئے تھے۔

ملیر ایکسپریس وے منصوبے کا سنگ بنیاد چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے دسمبر 2020 میں رکھا تھا۔ منصوبے کی تخمینہ لاگت 29 ارب روپے ہے جس کی تکمیل میں 30 ماہ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

اس وقت کورنگی جام صادق پل سے قائد آباد تک پہلے مرحلے میں تعمیراتی کام زور و شور سے جاری ہے اور اس سلسلے میں حال ہی میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے متعلقہ حکام کو دسمبر 2022 تک پہلا مرحلہ مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔



from SAMAA https://ift.tt/4wundQT

No comments:

Post a Comment

Michelle Obama Will Skip Trump’s Inauguration

By Erica L. Green and Katie Rogers from NYT U.S. https://ift.tt/Y8Qm1SJ